Wasi Shah Poetry

 

Wasi Shah, the Urdu literature icon, resounds with feelings of love and heartache through his soulful poetry. His couplets enter the hearts of those reading poetry all across the globe, by bringing out themes that never fade away with time or culture.


Elucidate the Themes


Most of Wasi Shah's poetry focuses on the complexity of love and the extremes it provokes. His poems track back to the ecstasy in the satiation of love and agony of feelings that go unrequited and are deep insight into human relationships.


Style and Effect


Wasi Shah is very publicized as a poet due to his lyricism and deep images. He weaves the words to present vivid landscapes of emotions. It is the same aspect—the way he explains the delicacy of a human heart-that has made him admired and praised by readers who are fond of poetry.


Popular Works


Some of the famous works of Wasi Shah involve "Mujhe Sandal Kar Do," "Malaiz," and "Ankhen Bheeg Jati Hain." It is a poetry that goes deep inside longing, desire, and bittersweet memories and cuts like a knife into the readers' minds.


Legacy and Influence


The timeless poetry of Wasi Shah has inspired generations across boundaries of space and language. His words resound in every Urdu-speaking heart and beyond, within the heart of anyone who loves the art of expression.


Conclusion


Be mesmerized by the enchanting world of Wasi Shah's poetry, where every verse is an epitome of the strength of emotions and timeless charm of heartfelt expression. Herein, he promises a raise in deep reflection and emotional resonance, whether one be an accomplished lover or a first-time appraiser of Urdu poetry.


Today, plunge into Wasi Shah's poetic journey and discover why his poems are timeless pieces of literature.


[Insert relevant images and links to read further about his works. 

کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر 

میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں


اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں

ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا


تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں

تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں


تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں

تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں


جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی

کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی


میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں

ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں


میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے

رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے


میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں

تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں


اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا

اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا


کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے


کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر

دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے


ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے

کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے


کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر

اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے


کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے

کس لیے غم اٹھایا کرتے تھے


فون پر گیت جو سناتے تھے

اب وہ کس کو سنایا کرتے تھے


آخری میں اس کو لکھا ہے

تم مجھے یاد آیا کرتے تھے


کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے


تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو


میں خوش نصیبی ہوں تیری مجھے بھی راس ہے تو

تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو


عجیب شے ہے محبت کے ہم کہاں جائیں

تیرے پاس ہوں میں بھی میرے بھی پاس ہے تو


میں نے خود کو فراموش کیا تیرے لیے

عام ہے سارا جہاں میرے لیے خاص ہے تو


بند ہونٹوں پر میرے ریت جمی جاتی ہے

میرے پاس ہے پھر بھی میری پیاس ہے تو


درمیان تیرے میرے جب سے لوگ آنے لگے

اس کے بعد سے میں تنہا اور بے ایس ہے تو


زمانہ ہم کو جدا کر سکے نہیں ممکن

محبت میں جو ناخن ہوں میں تو ماس ہے تو


دور ہو کر بھی نہیں ہے کوئی دوری

تیرے قریب ہوں میں میرے بھی پاس ہے تو


یہ کون تیرے میرے درمیان ہے جاناں

کے میں بے درد میں ہوں اور محو یاس ہے تو


زندگی میری تیرے گرد گھومتی ہے فقط

عام ہے سارا جہاں میرے لیے ایک خاص ہے تو


عجیب شے ہے محبت میں کہیں چلا جاؤں

تیرے قریب ہوں میں اور میری پیاس ہے تو


ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ

ﺻﺒﺢ ﮐﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﺠﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ
ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻏﻢ ﻧﮯ ﺳﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ

ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﺏ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ

ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﻤﺮ
ﺣﺎﻝ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ

ﮨﺮ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺍﮮ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻟﻮﮞ
ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﺳﺠﺎ ﻟﻮﮞ

ﺑﭽﮭﮍﯼ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﺑﭽﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺳﮯ
ﺟﯽ ﭼﺎﮬﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺭﻭﺯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﻼ ﻟﻮﮞ

ﺗﻮ ﭘﺎﺱ ﻧﺎ ﺁ، ﺑﺲ ﺫﺭﺍ ﺩﺍﻣﻦ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﮮ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻮﮞ

ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﮐﻮ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ
ﺍﺱ ﺩﻝ ﭘﮧ ﻟﮕﮯ ﺯﺧﻢ ﺫﺭﺍ ﺁﺝ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﻟﻮﮞ

Poet: وصی شاہ

Post a Comment

0 Comments